Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


سیمپل میں خرابی کے باعث آرڈر کی منسوخی پر سیمپل اخراجات کا حکم


سوال

ہمارا ایک تجارتی ادارہ ہے اور ہم مختلف اقسام کے گارمنٹس تیار کر کے بیرونِ ملک ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ گارمنٹس پر مختلف ڈیزائن بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہ ڈیزائن ہم خود منتخب نہیں کرتے بلکہ ہمارا خریدار ہمیں ڈیزائن دیتا ہے جو ڈیجیٹل تصویر کی صورت میں ہوتا ہے اور ہم اس کو کپڑے پر پرنٹ کرواتے ہیں۔ پر نٹنگ ہمارے ادارے میں نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس کے لئے پرنٹنگ فرم کی خدمات حاصل کی جاتی ہے۔

ہم پر نٹنگ فرم کو تیار شدہ ڈیزائن کی تصویر دیتے ہیں، ان کی طرف سے پہلے بطور نمونہ اس ڈیزائن کا تقریبا A4 سائز کے برابر کپڑا تیار کیا جاتا ہےگارمنٹس کی لائن میں اس کو Strike offs کہتے ہیں اور اس کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتاStrike offs تیار ہونے کے بعد ہم خود بھی اس کوچیک کرتے ہیں اور اپنے خریدار (جس کے لئے گارمنٹس تیار کیا جارہا ہے) کو بھی دکھاتے ہیں، اگر وہ اس کو قبول کر لیتا ہے تو ہم اس کو پاس کر کے پر نٹنگ فرم کو پرنٹ کا آرڈر دیدیتے ہیں۔

اس موقع پر ہمارے اور پر نٹنگ فرم کے درمیان یہ بات understood ہوتی ہے کہStrike offs اور بعد میں کپڑے پر ہونے والے پرنٹ میں انیس بیس( تقریبا دس پر سنٹ) کا فرق ہو سکتا ہے کیونکہ Strike offs ٹیبل پر( مینول طریقے سے) سے تیار ہوتا ہے اور اصل پرنٹ مشین کے ذریعے ہوتا ہے۔ جب ہم Strike offs پاس کر کے پرنٹ کا آرڈر دیتے ہیں،آرڈر میں ایک تو پر نٹ کے چارجز ہوتے ہیں جوPer KG کے حساب سے طے کئے جاتے ہیں اور دوسرا پرنٹنگ فرم مشین پر پرنٹنگ کےلئے پہلے اس ڈیزائن کی جالی (سکرین / فلم) بناتے ہیں، جالی (سکرین / فلم) بنانے کے علیحدہ سے چار جز مقرر ہوتے ہیں البتہ جالی کے سلسلے میں پر نٹنگ فرمز کے ہاں اصول یہ ہے کہ اگر اس ڈیزائن میں ہزار کلو گرام سے زیادہ مال پرنٹ کروانا ہو تو ایسی صورت میں وہ جالی (سکرین / فلم)کے چار جز وصول نہیں کرتے، بعض اوقات اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کوئی مال ہزار کلو گرام سے کم ہونے کی وجہ سے جالی (سکرین / فلم) کی چار جز لگا دیئے جاتے ہیں لیکن اگر تین ماہ کے اندر اندر ( یہ دورانیہ مختلف پر نٹنگ فرمز میں کم و بیش ہوتا ہے ) اسی ڈیزائن میں مزید مال بنوالیا جائے اور یوں اس ڈیزائن کا کل مال ہزار کلو گرام سے بڑھ جائے تب بھی جالی (سکرین / فلم) کے چار جز ہمیں واپس کر دیئے جاتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد عرض یہ ہے کہ ہم نے ایک پر نٹنگ فرم کے ساتھ ایک ڈیزائن بنانے کا معاملہ کیا، ( یہ معاملہ براہِ راست نہیں تھا بلکہ ایک بروکر کے توسط سے تھا) ان کی طرف سے اس ڈایزائن کا Strike offs تیار کیا گیا، یہ Strike offs بالکل بہترین اور ہمارے معیار کےمطابق تھا، ہم نے اپنے خریدار کو دکھایا تو اس نے بھی پسند کرتے ہوئے منظوری دی، لہذا ہم نے پرنٹنگ فرم کو جالی (سکرین / فلم ) تیار کرنےاور پر نٹنگ کا آرڈر دیدیا لیکن جب انہوں نے ابتدائی طورپر کچھ کپڑے پر مشینی پرنٹ نکال کر ہمیں دکھایا تو وہ ہمارے مطلوبہ معیار اور ان کی طرف سے ہمیں دکھائے گئے Strike offs سے بہت مختلف تھا، عموما جوانیسں بیسں ( تقریبا دس پر سنٹ) کا فرق آتا ہے، یہ اس سے زیادہ ہے(تقریبا 25 سے 30 پر سنٹ) اور اس فرق کی وجہ سے جو اصل ڈیزائن تھاوہ ہی چھپ گیا ہے (کیونکہ ایک کلر دوسرے پر پھیل گیا ہے)،لہذامطلوبہ ڈیزائن کے بر خلاف پرنٹ کی وجہ سے ہمارا کافی مقدار میں کپڑا بھی خراب ہو گیا، مزید نقصان سے بچنے کے لئے ہم نے ان کو مزید پرنٹ کرنےسے روک دیا اور ان کے ساتھ یہ معاملہ بھی ختم کر لیا۔

دوسری طرف چونکہ پر نٹنگ، فرم نے اس کی جالی تیار کی تھی اور کچھ کپڑا پرنٹ کیا تھا توان کا بھی گویا خرچہ ہوا۔چونکہ یہ کام ہم نے ایک بروکر کے توسط سے کیا تھا، اب صور تحال یہ ہے کہ بروکر ہم سے جالی (سکرین / علم) کے چار جز کا مطالبہ کر رہاہے ، اور ان کا کہنا یہ ہے کہ پر نٹنگ کی لائن میں رواج ہے کہ جب ایک مرتبہ جالی (سکرین / فلم ) بن جاتی ہے تو گاہک کو اس کے چار جز بہر حال ادا کرنے ہوتے ہیں، چاہے پرنٹ اس کے معیار پر پورانہ بھی اترے، دوسر اوہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہی ڈیزائن ان سے ایک اور ادارہ نے بھی بنوایا تھا جو اسی طرح سے (یعنی اصل ڈیزائن سے فرق کے ساتھ ) آیا جو آگے ان کے خریدار نے قبول کر لیا تھا لہذا انہوں نے سوچا کہ ہمارا خریدار بھی اس کو قبول کرلے گا۔ جبکہ ہماری طرف سے ان کو کہا گیا کہ آپ کی طرف سے جو Strike offs ہمیں پیش کیا گیا اس میں اور اس پرنٹ میں جو فرق آیا ہے وہ عام طور پر آنے والے فرق سے بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہمارا کپڑا بھی ضائع ہو گیا ہے، اور ہمیں یہ بات بھی معلوم ہے کہ ہمارا خرید ار اس فرق کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔
اس حوالے سے درج ذیل امور میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
1. کیا درج بالا صور تحال کے پیش نظر بروکر /پر نٹنگ فرم کا ہم سے جالی (سکرین / فلم) کے چار جز کا مطالبہ کر ناشر عا ً درست ہے ؟
2. اگر پرنٹنگ فرم کی طرف سے کسی ڈیزائن کا با قاعد ہ Strike offs نمونہ بنا کر دکھایا جائے اور پھر بعد میں اس کے مطابق کئے گئےپرنٹ میں اگر عرف میں قابل برداشت فرق سے بھی زیادہ فرق آجائے تو کیا ایسی صورت میں پر نٹنگ فرم کا ہم سے جالی (سکرین /فلم) کے چارجز کا مطالبہ کرناشر عادرست ہے ؟ اور اگر ہے تو کس قدر ؟

3. پر نٹنگ فرم جب کسی مال کی جالی (سکرین / فلم) تیار کرنے کے بعد پر نٹنگ کا عمل شروع کرتی ہے اور کچھ مال پرنٹ بھی کر دیتی ہےلیکن وہ مطلوبہ معیار کے بر خلاف ہو جس کی وجہ سے گار منٹس کمپنی اس آڈر کو کینسل کر دے تو اب تک کی پرنٹنگ کا جو خرچہ ہوا ہےاس کا کیا حکم ہو گا ؟

4. اسی طرح مطلوبہ معیار کے بر خلاف پر نٹنگ کی وجہ سے ہمارے کپڑے کا جو نقصان ہوا ہے کیا شرعا ًپر نٹنگ فرم کو اس کا ذمہ دار قراردیا جا سکتا ہے؟

5. اس معاملے میں مارکیٹ میں رائج مختلف عرف مثلا جالی (سکرین / فلم) کے پیسے بہر حال دینے ہی ہوتے ہیں، پرنٹ خراب آنے کی وجہ سے جتنا کپڑا پرنٹ ہو جائے اس کے چار جز پر نٹنگ فرم وصول نہیں کرتا اور کپڑے کی قیمت کا نقصان بھی ادا نہیں کرتا، شرعاً ان کا کیاحکم ہوگا؟

6. اگر فریقین کا اختلاف ہو جائے پر نٹنگ والا کہے کہ یہ انیس بیسں کا فرق ہے جو کہ مارکیٹ میں چلتا ہے جبکہ گار منٹس والے اس کو انیس بیسں سے زیادہ فرق بتائیں تو ایسی صورت میں فیصلہ کیسے ہو گا ؟

7. جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ پر نٹنگ فرم جانب کسی بھی ڈیزائن کا ابتدائی نمونہ مینول طریقے سے بنایا جاتا ہے لیکن اصل پرنٹنگ مشین پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے دونوں میں فرق ہو جاتا ہے، یہ معاملہ کرتے ہوئے شرعاً کن امور کا لحاظ رکھنا چاہئے تا کہ آئندہ اختلاف سے بچا جا سکے؟
وضاحت:سائل نے بتایا کہ جالی تو انہوں نے ٹھیک بنائی تھی لیکن پرنٹنگ کے پروسس کے دوران پرنٹ کے کلر ایسے خلط ملط ہوگئے کہ ایک رنگ دوسرے میں مل گیا ،سائل نے مزید یہ بتایا کہ پرنٹنگ فرم والوں نے اس جیسی پر تنگ ہم سے پہلےکسی اور کیلئے بھی کی تھی، اس میں بھی اتنا فرق آیا تھا۔ البتہ پرنٹنگ فرم والوں نے اس فرق کے ساتھ اس کمپنی سے وہ پرنٹ قبول کرایا تھا اور ہمارے بارے میں بھی یہی گمان تھاکہ ہم بھی پرنٹ کو اس فرق کے ساتھ قبول کر لیں گے اور جب ہم آرڈر دے رہے تھے توہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس جیسی پرنٹنگ میں نمونہ والی پرنٹ اور بعد والی پرنٹ میں دیگر پرنٹنگ کے مقابلے میں زیادہ فرق آتا ہے جس کی وجہ سے ہماری دی گئی پرنٹنگ میں بھی فرق آیا۔اور پرنٹنگ فرم کے بقول جالی مخصوص صورت حال میں مثلاً مشین خراب ہو جائے اور گارمنٹس کمپنی آرڈر کینسل کر دے تو گارمنٹس کمپنی اس جالی کو کسی اور پرنٹنگ فرم سے پرنٹنگ کرانےکیلئے بھی لے جا سکتی ہے، اور ڈیزائن کی وجہ سے اس جالی کو پرنٹنگ فرم والا کسی دوسرےگارمنٹس کمپنی کے کپڑوں میں استعمال نہیں کر سکتا۔ البتہ گارمنٹس کمپنی کے بقول ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے پرنٹنگ فرم والے سے جالی لے کر کسی دوسرے پرنٹنگ فرم والے کو دی ہو یا وہ جالی کسی اور گاہک کے استعمال کے سلسلے میں ہم سےاجازت طلب کی ہو اور شاید یہ اصول ہو لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔اور مذکورہ مسئلہ میں جالی اگر چہ صحیح بنائی تھی لیکن اس جیسی پرنٹنگ میں رنگ پھیل ہی جاتا ہے لہذا مذکورہ گارمنٹس کمپنی کیلئے یہ جالی کسی کام کی نہیں ہے۔

جواب

(1،2،5)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ وضاحت کے مطابق جب پرنٹنگ فرم نے گارمنٹس کمپنی کے آرڈر پر اس کےمطلوبہ معیار کے مطابق صحیح جالی بنائی، اور اس جالی کو پرنٹنگ فرم کسی دوسرے گار منٹس کمپنی کے کپڑوں میں اس کی اجازت کے بغیر استعمال بھی نہیں کر سکتا بلکہ یہ جالی مخصوص اس کمپنی کے لئے بنائی ہے، تو ایسی صورت میں اس جالی کے اخراجات گار منٹس کمپنی کے ذمہ ہوں گے ، اور مذ کو رہ جالی گارمنٹس کمپنی کی ملکیت شمار ہو گی۔

(3،4)۔۔۔مسئولہ صورت میں جب پرنٹ کیلئے دیے گئے کپڑوں پر مطلوبہ معیار کے خلاف پرنٹ کیا گیا اور کپڑوں کے ضائع ہونے کے خوف سے مذکورہ معاملہ منسوخ کر دیا گیا تو اس صورت میں گارمنٹس کمپنی کو دو اختیار حاصل ہوں گے۔
پہلا یہ ہے کہ گارمنٹس کمپنی مذ کو رہ پرنٹ شدہ کپڑے پر نٹنگ فرم کے حوالہ کرے اور اس سے اپنے کپڑوں کےعوض سفید کپڑے یا اس کی قیمت لے لے۔

دوسرا اختیار یہ ہے کہ گارمنٹس کمپنی ان پرنٹ شدہ کپڑوں کو خودر کھلے جس پر پرنٹ مطلوبہ معیار کے خلاف ہواہے، اور پر نٹنگ فرم کو اس پر نٹنگ کے بدلے اجرتِ مثل (اس جیسے کام کی عام طور پر عرف میں میں جو اجرت دی جاتی ہے )دیدے بشرطیکہ وہ اجرت مثلی اس اجرت سے زیادہ نہ ہو جو عقد اجارہ کے وقت طے ہوئی ہے۔

البتہ اگر پرنٹنگ فرم نے پرنٹ کی وجہ سےکپڑوں میں نقص پیدا کر دیا ہو جس کی وجہ سے ان کپڑوں کی قیمت کم ہوگئی ہو تو اس صورت میں اگر گار منٹس کمپنی دوسری صورت یعنی پرنٹ شدہ کپڑے لینے کو اختیار کرے تو گار منٹس کمپنی کیلئے جائزہے کہ وہ پرنٹنگ فرم سے کپڑوں میں ہونے والے نقصان کا ضمان لے لے یعنی پر نٹ کی وجہ سے کپڑوں کا جو نقصان ہوا اس کا پر نٹنگ فرم سے تاوان لے اور اس صورت میں اجیر کو اجرت نہیں ملے گی۔(3،4)

(6)۔۔۔مسئولہ صورت میں جب فریقین کے درمیان کپڑوں پر پرنٹ مطلوبہ معیار کے مطابق ہونے اور نہ ہونےمیں اختلاف ہوگیا تو اس بارے میں مذکورہ صنعت کے ماہرین اور تجربہ کاروں سے فیصلہ کروایا جائے اور ان کی رائے کے مطابق حل کیا جائے۔(6)

(7)۔۔۔ مذکورہ صنعت کے بارے میں ہمیں تفصیلی علم نہیں ہے، اس لیے کوئی حتمی جواب دینا ممکن نہیں، البتہ شرعی لحاظ سے معاملات میں صفائی رکھنا ضروری ہے، اور معاملات اس طرح طے کئے جائیں کہ بعد میں جھگڑے اور نزاع کی نوبت نہ آئے لہٰذامذکورہ معاملہ کرتے وقت بھی کام کی مکمل تفصیل اور وضاحت کرنی چاہیے۔

(3،4)
بدائع الصنائع، (216/4)
وأما استئجار الصناع من الحائك، والخياط والصباغ، ونحوهم.
فالخلاف إن كان في الجنس بأن دفع ثوبا إلى صباغ ليصبغه لونا فصبغه لونا آخر فصاحب الثوب بالخيار: إن شاء ضمنه قيمة ثوب أبيض، وسلم الثوب للأجير، وإن شاء أخذ الثوب، وأعطاه ما زاد الصبغ فيه إن كان الصبغ مما يزيد.... وإن كان الصبغ مما لا يزيد كالسواد على أصل أبي حنيفة فاختار أخذ الثوب لا يعطيه شيئا بل يضمنه نقصان الثوب في قول أبي حنيفة، بناء على أن السواد لا قيمة له عنده فلا يزيد بل ينقص، وعندهما له قيمة فكان حكمه حكم سائر الألوان،.... وإذا كان الخلاف في الصفة نحو أن دفع إلى صباغ ثوبا ليصبغه بصبغ مسمى فصبغه بصبغ آخر لكنه من جنس ذلك اللون فلصاحب الثوب أن يضمنه قيمته أبيض، ويسلم إليه الثوب، وإن شاء أخذ الثوب، وأعطاه أجر مثله لا يجاوز به ما سمي.

الفتاوى الهندية (495/4)
ولو أمر رجلا ليصبغ ثوبه بالزعفران أو بالبقم فصبغه بصبغ من جنس آخر كان لرب الثوب أن يضمنه قيمة ثوبه أبيض وترك ثوبه عليه، وإن شاء أخذ الثوب وأعطاه أجر مثله لا يزاد على المسمى، وإن صبغه بما أمره إلا أنه خالف في الوصف بأن أمره أن يصبغه بربع قفيز عصفر فصبغه بقفيز عصفر وأقر بذلك رب الثوب خير رب الثوب إن شاء ترك الثوب عليه وضمنه قيمة ثوبه أبيض، وإن شاء أخذ الثوب وأعطاه ما زاد من العصفر مع الأجر المسمى. كذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 42)
(و) ‌ضمن (بصبغه أصفر وقد أمر بأحمر قيمة ثوب أبيض، وإن شاء) المالك (أخذه وأعطاه ما زاد الصبغ فيه ولا أجر له، ولو صبغ رديئا إن لم يكن الصبغ فاحشا لا ‌يضمن) الصباغ (وإن) كان (فاحشا) عند أهل فنه (‌يضمن) قيمة ثوب أبيض خلاصة.[فروع] قال للخياط: اقطع طوله وعرضه وكمه كذا فجاء ناقصا، إن قدر أصبع ونحوه عفو، وإن كثر ‌ضمنه. (قوله قيمة ثوب أبيض) أي إن كان دفعه مالكه كذلك (قوله لا ‌يضمن) أي وله الأجر المسمى فيما يظهر ط.قلت: يدل عليه ظاهر قوله الآتي إن قدر أصبع ونحوها عفو، لكن في البزازية عن المحيط: أمره بزعفران ويشبع الصبغ ولم يشبع ‌ضمنه قيمة ثوبه أو أخذه وأعطاه أجر المثل لا يزاد على المسمى تأمل. (قوله عند أهل فنه) أي صنعته.

دور الحكام في شرح مجلة الأحكام (706/1)
أَمَّا إِذَا لَم يَتلَفْ وَخُولِفَ الشَّرْطُ فَيَجْرِي عَلَى مَا تَجِيءُ فِي التَّفْصِيلَاتِ الْآتِيَةِ:
١ - إذا أعطى أحَدٌ صَبَّاعًا ثِيَابًا عَلَى أَنْ يَصْبُعَهَا بِلَوْنِ كَذَا وَخَالَفَ الشَّرْطَ بِأَنْ عَدَلَ إلى غَيْرِهِ يُنظرُ فَإِذَا كَانَتْ الْمُخَالَفَة في الجنسِ كَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُخَيَّا إِذَا شَاءَضَمَّنَ الصَّباعُ القِيَابَ بِلَوْنِهَا الْأَصْلِي وَتَرَكَهَا لَهُ. وَإِذَا شَاءَ أَخَذَهَا بِأَجْرِ الْمِثْلِ عَلَى أَلَّا يَتَجَاوَزَ الْأَجْرَ الْمُسَمَّى وَإِذَا كَانَتْ الْمُخالَفَةُ الْمَذْكُورَةُ بِالْوَصْفِ فَيَكُونُ ذَلِكَ الشخص تغيرًا أَيْضًا فَإِنْ شَاءَ تَرَكَ البَابَ الصَّبَّاغِ وَضَمَّنَهُ فِيمَتَهَا بِأَوْلِمَا الْأَصْلِي وَإِنْ شَاءَ أخذ ثيابه ودَفَع إلى الأجير الأجر المُسَمَّى مَعَ أَجْرَةِ الزَّيَادَةِ الَّتِي حَدَثَتْ بِذَلِكَ الْوَصْفِ.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 487)
النوع الْأَوَّلُ: إِذَا كَانَ بِاسْتِيفاء الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ ضَرَرٌ بِالنَّفْسِ أَوْ الْمَالِ فَتُفْسَحُ الْإِجَارَةُ؛ لأنَّهُ لَمَّا كَانَتْ الْمَنَافِعُ غَيْرَ مَقْبُوضَةٍ وَذَلِكَ الْعُذْرُ يمنزِلَةِ الْعَيْبِ فِي الْبَيْعِ قَبْلَ الْقَبْضِ فَقَدْ جَازَ فَسْحُهَا لِأَجْلِ الْعُذرِ (الزيلعي). تفْسَحُ الإجازة إذا اسْتَلْرَمَتْ ضَرَرًا لَيْسَ مِنْ مُقْتَضَى الْعَقْدِ إِذْ لَا يَجُوزُ تَحْمِيلُ أَحَدٍالْعَافِدَيْنِ ضَرَرًا لَا يَقْتَضِيهِ عَقْدُ الْإِجَارَةِ.

(6)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 358)
اختلاف الطرفين في أقام العمل: إذا اختلف الطرفان المستأجر والأجير في أداءالعمل وعدمہ فالقول للمستأجر مع یمینہ والبينۃ على الأجير، لأن الأجيز يدعي أداءالعمل والمستاجر ینكر ذلك (تقيح فتاوى ابن نجیم رَدُّ المُحتار) فلو ادعي الأجیر أداءالعمل وطلب الأجرة وانكر المستاجر، فالقول للمستاجر وعليه حلف اليمیني والبينة على الأجیر.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (75/6)
(قوله والقول قول رب الثوب إلخ) بأن قال: أمرتك أن تعمله قباء وقال الخياط: قميصا أو أن تصبغه أحمر وقال الصباغ: أصفر أو أن تعمله لي بغير أجر وقال بل بأجر فالقول لرب الثوب؛ لأن الإذن يستفاد من جهته فكان أعلم بكيفيته ولأنه ينكر تقوم عمله ووجوب الأجر عليه زيلعي ملخصا. (قوله بيمينه) فإذا حلف في الصورة الأولى، إن شاء ضمنه قيمة الثوب غير معمول ولا أجر له، وإن شاء أخذه وأعطاه أجر مثله لا يتجاوز به المسمى؛ لأنه امتثل أمره في أصل ما أمر به وهو القطع والخياطة، لكن خالفه في الصفة فيختار أيهما شاء، وفي الثانية إن شاء ضمنه قيمة ثوب أبيض وإن شاء أخذ ثوبه وأعطاه أجر مثله لا يجاوز به المسمى أيضا درر.

(7)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 507)
يُشْتَرَطُ فِي الْإِجَارَةِ أَنْ تَكُونَ الْمَنْفَعَةُ مَمْلُوءَةً بِوَجْهِ يَكُونُ مَانِعًا لِلْمُنَازَعَة.
الْمَادَّةُ (۲۵۵) تَكُونُ الْمَنْفَعَةُ مَعْلُومَةً فِي اسْتِنْجَارِ أَهْلِ الصَّنْعَةِ بِبَيَانِ الْعَمَل.

يَعْنِي بِتَعْيِينِ مَا يَعْمَلُ الْأَجِيرُ أَوْ تَعْيِينِ كَيْفِيَّةِ عَمَلِهِ فَإِذَا أُرِيدَ صَبْغ الثِيَابِ يَلْزَمُ إرَادَتُھا لِلصَّبَّاغِ أَوْ بَيَانُ لَوْنِهَا أَوْ إِعْلَامُ رِقَتِهَا مَثَلًا. يَلْزَمُ فِي الْأَجِيرِ الْمُشْتَرَكِ بَيَانُ الْعَمَلِ وَالْمَنْفَعَةِ بِحَيْثُ تَرْتَفِعُ الْجُهَالَةُ بِمَا كُلَّ الِارْتِفَاعِ وَتُعْلَمُ الْمَنْفَعَةُ تَارَةً بِبَيَانِ الْمُدَّةِ وَأُخْرَى بِتَسْمِيَةِ الْعَمَلِ فَعَلَيْهِ تَكُونُ الْمَنْفَعَةُ الَّتِي هِيَ شَرْطٌ فِي اسْتِئْجَارٍ أَهْلِ الصَّنْعَةِ كَالخَيَّاطِ وَالنَّجَّارِ وَالطَّبَاحَ وَالصَّبَّاغِ مَعْلُومَةٌ بِبَيَانِ الْعَمَلِ. يَعْنِي بِتَعْيِينِ مَايَعْمَلُ الْأَجِيرُ أَوْ تَعْبِينِ كَيْفِيَّةِ عَمَلِهِ. يَعْنِي الْمَنْفَعَةَ تَارَةٌ تُعْلَمُ بِبَيَانِ الْمُدَّةِ لِمَا تَقَدَّمَ وَتَارَةٌ بِمُجَرَّدِ التَّسْمِيَةِ بِدُونِ ذِكْرِ الْمُدَّةِ (شَلَبِيّ) رَاجِعْ الْمَادَّةَ (٢٢٤) .

اسْتِئْجَارُ الصَّبَّاغِ : إذَا أُرِيدَ صَبْغُ أَثْوَابِ مَثَلًا يَجِبُ إِرَاءَتُھَا لِلصَّبَّاغ أَوْ بَيَانُ جِنْسِهَاوَنَوْعِهَا وَقَدْرِهَا وَصِفَتِهَا لَهُ أَيْ غِلَظِهَا وَرِقْتِهَا وَلَوْنِ الصَّبْغِ الْمُرَادِ مَعَ إِذَا كَانَ الصَّبَّاغُ يَخْتَلِفُ رِقَةٌ وَغِلْظَةٌ يَجِبُ بَيَانُ مِقْدَارِهِ أَيْضًا فَإِذَا لَمْ يُعْمَلْ كَذَلِكَ فَالْإِجَارَةُ فَاسِدَةٌ لِأَنَّ مَنْفَعَةَ الْأَثْوَابِ تَخْتَلِفُ بِنِسْبَةِ غِلَظِهَا وَرِقَّتِهَا رَدُّ الْمُحْتَارِ اسْتِئْجَارُ الْخَيَّاطِ : وَإِذَا أُرِيدَ خِيَاطَةُ أَثْوَابِ يَلْزَمُ أَنْ يُرِيَ الْأَثْوَابَ وَنَوْعَ الْخِيَاطَةِ الْمَطْلُوبَةِ (مجْمَعُ الْأَنْھرِوَعَبْدُ الحَلِيمِ )الخُلاصَةُ: أَنَّ الشُّرُوطَ الَّتِي وَرَدَتْ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ هِيَ فِي الْأَجِيرِالْمُشْتَرَكِ أَيْ فِي اسْتِئْجَارِهِ إِذْ لَيْسَ بَيَانُ جِنْسِ الْمَعْمُولِ فِيهِ وَنَوْعِهِ وَقَدْرِهِ وَصِفَتِهِ شَرْطًا بِالنِّسْبَةِ إلى الخاص ... . والله تعالى أعلم بالصواب


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2254/43 المصباح : FS:004