Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اے آئی (AI) کے ذریعے انسانی شکل کے روبوٹس کی تصاویر بنا کر ویب سائٹ پر لگانا


سوال

ہم ایک سافٹ ویئر ہاؤس چلاتے ہیں جس میں مختلف نوعیت ، مثلا ڈیجیٹل مارکیٹنگ(Digital Marketing) ویب سائٹ ڈیولپمنٹ (Website Development) ویڈیو گرافی اینڈ ایڈیٹنگ (Videography and Editing) پینا فلیکس میکنگ (Pana flex Making) جیسے کام انجام دیے جاتے ہیں۔
درج ذیل مسائل میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
• ڈیجیٹل روبوٹ ڈیزائننگ:
AIکے ذریعے انسانی شکل والے مشینی انسان (روبوٹس) بنائے جاتے ہیں، جو صرف ڈیجیٹل فارم میں ہوتے ہیں، مگر یہ بے لباس ہوتے ہیں اور مشینی انسانی اعضا کی ساخت ظاہر ہوتی ہے۔
1. روبوٹس کی ایسی تصاویر بنانا اور اسے ویب سائٹ میں لگانے کا کیا حکم ہے؟
2. نیز ایسے ویب سائٹ کو بنانے کی اجرت کیسی ہے؟
• ویب سائٹ میں تصاویر کا استعمال:
بعض اوقات کلائنٹس اپنی ویب سائٹ میں "ہماری ٹیم" جیسے سیکشنز میں انسانی تصاویر شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
3. ایسی تصاویر شامل کرنے پر ویب سائٹ تیار کرنے کی مکمل اجرت کا کیا حکم ہے؟
4. AI سے تیار کردہ انسانی تصاویر ویب سائٹ پر لگانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1) ۔۔۔ اے آئی (AI) کے ذریعے واضح انسانی شکل والے روبوٹس کی تصاویر بنانے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ تصویر مردیا بچوں کی شکل میں ہو، اور اس میں مستور اعضاء (یعنی وہ اعضاء جنہیں شرعاً چھپانا لازم ہے) کی ساخت واضح نہ ہو، نیز تصویر صرف ڈیجیٹل فارم تک محدود ہو (جیسا کہ سوال میں بیان کیا گیا ہے) تو ایسی تصویربنانے کی گنجائش ہے۔
لیکن اگر روبوٹس کی تصویر خواتین کی شکل میں ہو ، یا اس میں حرمت کی کوئی اور وجہ پائی جائے( مثلاستر کا کھلا ہونا یا تصویر میں کسی غیر شرعی فعل کا ارتکاب دکھایا جانا ) تو ایسی تصویر بنانا جائز نہیں۔ اسی اصول کےمطابق جو تصویر بنانا شرعاً جائز ہے، اسے ویب سائٹ پر لگانا بھی جائز ہے، اور جو تصویر بنانا جائز نہیں ہے اسے ویب سائٹ میں لگانا بھی جائز نہیں ہو گا۔ تاہم حتی الامکان جاندار کی تصویر سے اجتناب کرناہی بہتر ہے۔

(2،3،4)۔۔۔ اگر کسی ویب سائٹ کا بنیادی مقصد جائز ہو ، اور اس میں شامل کی گئی تصویر مردیا بچوں کی ہو،اور ان تصاویر میں کوئی اور شرعی قباحت نہ ہو (مثلاً ستر کا کھلا ہونا یا تصویر میں کسی غیر شرعی فعل کا ارتکاب دکھایاجانا) تو ایسی ویب سائٹ بنانا جائز ہے، اور اس کی اجرت بھی حلال ہو گی۔ لیکن اگر ویب سائٹ میں شامل کی گئی تصویر خواتین کی ہو ، یا تصاویر میں کسی اور وجہ سے شرعی ممانعت پائی جائے ( جیسے ستر کا کھلا ہونا یا کسی غیر شرعی فعل کا ارتکاب دکھایا جانا) تو ایسی تصاویر لگانا شرعاً جائز نہیں، اور ان تصاویر کی تیاری یا شمولیت کے بقدر اجرت لینا بھی جائزنہیں ہو گا۔ اور اگر ویب سائٹ کا بنیادی مقصد ہی ناجائز ( حرام) ہو، تو ایسی ویب سائٹ بنانے کی مکمل اجرت ناجائزہوگی۔ اور تصویر چاہے مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعہ بنائی جائے یا کسی اور طریقہ سے بنائی جائے سب کا حکم اوپرذکر کردہ تفصیل کے مطابق ہو گا۔ (مستفاد من التبويب : 4/1365 ،2564/42)

تكملة فتح الملهم(164/4)
فان كانت صورالانسان حية بحيث يبدو على الشاشة في نفس الوقت الذى يظهر فيه الانسان أمام الكيمرا ، فان الصورة لا تستقر على الكيمرا ولا على الشاشة وانما اجزاء كهربائية تنتقل من الكيمرا الى الشاشة وتظهر عليهابترتيبها الأصلى ثم تفنى وتزول . وأما إذا احتفظ بالصورة في شريط الفيديو ،فإن الصور لاتنقش على الشريط، وإنما تحفظ فيها الأجزاء الكهربائية التي ليس فيها صورة فإذا ظهرت هذه الأجزاء على الشاشة ظهرت مرة أخرى بذلك الترتيب الطبيعي ، ولكن ليس لها ثبات ولا استقرار على الشاشة، إنماتظهر وتفنى . فلا يبدو ان هناك مرحلة من المراحل تنتقش فيها الصورةعلى شيء بصفة مستقرة أو دائمة. وعلى هذا فتنزيل هذه الصورة المستقرةمشكلة.

مجمع الأنھر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 384)
وان(أو المعاصي) أي لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح،والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجرةأعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد. وفي شرح الكافي لا يجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيءمن اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجررجلا ليضرب له الطبل إن كان للهو لا يجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها........والله سبحانه و تعالی اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2704/50 المصباح : NF:010