درج ذیل مسئلہ کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں:
آج سے تین سال قبل ہمارے والد صاحب نے تقریباً ایک کروڑ روپے کی رقم ہم چار بہن بھائیوں (ایک بھائی، تین بہنیں) کو دی تا کہ اس کےساتھ کاروبار کیا جائے ، یہ رقم والد صاحب نے مجھے دی تھی تاکہ میں اس کے ذریعے سے کاروبار کروں ، یہ رقم درج ذیل شرائط کے ساتھ دی تھی اورایک معاہد ہ نامہ بھی باہمی رضامندی سے طے کر وایا تھا ۔
اس رقم کے ساتھ کاروبار کیا جائے گا (جو کہ معاہدہ نامہ کی شرائط کے مطابق ہو گا)جب تک اس رقم کے ساتھ کاروبار کیا جائے گا، اس کا نفع درج ذیل تناسب کے ساتھ تقسیم ہو گا:
1) (یعنی بھائی) ٪34
2) (یعنی(یعنی بہن) ٪22
3) (یعنی(یعنی بہن) ٪22
4) (یعنی(یعنی بہن) ٪22
اسی طرح نقصان ہونے کی صورت میں مندرجہ بالا نسبت سے ہر شریک نقصان برداشت کرے گا۔ اگر کسی وجہ سے کاروبار ختم کیا گیا اور سرمایہ تقسیم کرنے کی نوبت آگئی تو سب سے پہلے کاروبار پر ہونے والے قرض اور دیگر واجبات کی ادائیگی کی جائے گی ، اس کے بعد جو بھی کاروبار کی جو صور تحال ہو گی (خواہ نفع کی حالت میں ہو یا نقصان کی حالت میں ) کاروبار تحلیل کرنے کے بعد جو رقم حاصل ہو گی وہ سب شرکاء میں برابر تقسیم ہو گی۔معاہدہ نامہ کی بنیادی شقیں یہی ہیں، اس لئے ان کی وضاحت کر دی گئی، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ بالا معاہدہ میں شرعی لحاظ سے کوئی خرابی ہو تو اس کی نشاندہی فرمادیں اسی طرح اس میں اگر کوئی شق خلاف شریعت ہو تو اس کو بھی واضح فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا
معاہدہ نامہ میں جو یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ جب بھی کاروبار تحلیل کیا جائے گا اس وقت واجب الاداءر قوم وغیرہ کی ادائیگی کے بعد جو رأس المال اور منافع بچے وہ تمام شرکاء (بھائی بہنوں ) میں برابر برابر تقسیم ہو گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب نے رقم تمام اولاد میں برابر برابر ہبہ کی ہے اوراس طرح ہبہ کرنا حضراتِ صاحبین کے نزدیک جائز ہے، لہذا تمام شرکاء اس رقم میں برابر کے شریک ہیں،البتہ والد صاحب نے بھائی کو بہنوں کی طرف سے کاروباری معاملات چلانے کی ذمہ داری سونپ دی ہے اور کاروبار میں ہونے والے نفع و نقصان کی تقسیم کے لئے دو ضابطے مقرر کئے ہیں:
ایک تو یہ کہ کاروبار کے درمیان جب نفع تقسیم کیا جائے تو بھائی کو بہنوں سے زیادہ مقدار ملے گی ، یعنی بھائی کو 34 فیصد نفع ملے گا اور بہنوں کو 22، 22 فیصد نفع ملے گا اور اسی تناسب سے یہ حضرات نقصان بھی برداشت کریں گے۔
البتہ کاروبار کے اختتام اور تحلیل کے وقت نفع کی مقدار تو طے کر دی گئی ہے کہ وہ برابر برابر تقسیم ہو گا لیکن خدانخواستہ اس وقت اگر کوئی نفع نہیں ہوا ہو بلکہ نقصان ہوا ہو تو اس کے بارے میں کچھ طے نہیں کیا گیا، خلاصہ یہ کہ نفع کے لئے دو مختلف معیار مقرر کئے گئے ہیں جبکہ نقصان کے لئے ایک ہی معیار مقرر کیا گیا۔
جہاں تک نقصان کی بات ہے تو شرعا ًیہ بات لازم ہے کہ ہر شریک اپنے لگائے گئےسرمائے کے مطابق ہی ذمہ دار ہے، اس سے کم یازیادہ کی شرط لگانا صحیح نہیں لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ ہر شریک کی طرف سے لگایا گیاسرمایہ برابر ہے اس لئے ایک شریک یعنی بھائی کے ذمہ 34 فیصد نقصان کی شرط لگانا درست نہیں،یہ شرطِ فاسدہے لیکن چونکہ شرطِ فاسد کی وجہ سے شرکت فاسد نہیں ہوتی اس لئے صورت مسئولہ میں شرکت کا معاملہ درست ہے۔ تاہم یہ شرط باطل اور لغو ہے یعنی اس شرط پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے بقدر ہی ضامن ہو گا۔
البتہ نفع کے لئے معاہدہ میں جو یہ بات طے ہوئی ہے کہ کاروبار کے درمیان بھائی کو ۳۴ فیصداور بہنوں کو ۲۲ فیصد ملے گا اور کاروبار کے اختتام پر ان شرکاء کو نفع برابر برابر تقسیم ہو گا تو یہ اس میں بظاہرشرکت کے کسی بنیادی اُصول کے مخالفت لازم نہیں آتی ، لہذا اس طرح نفع طے کرنا بھی جائز ہے۔ نیز چونکہ کاروبار چلانے کی تمام ذمہ داری بھائی پر ہے، اس لئے باہمی رضامندی سے اس کے لئے زیادہ نفع طے کرنا جائزہے۔ (دیکھیں عبارات: 1،2)
باقی معاہدہ نامہ کے دیگر کالم میں ذکر کردہ شرائط درست ہیں البتہ کالم نمبر (۱۴) میں ایک بات کا اضافہ ضروری ہے ، وہ یہ کہ تنازعہ کے وقت جس شخص کو ثالث اور محکم کے طور پر مقرر کیا گیا ہو اس کے فیصلہ پر عمل اس وقت ضروری ہو گا جب کہ وہ شریعت کے کسی حکم کے مخالف نہ ہو، ورنہ اس فیصلہ پر عمل کر نالازم بلکہ جائزنہیں ہو گا۔
اسی طرح کالم نمبر (۲۱) میں جو طے کیا گیا ہے کہ جن معاملات کے متعلق اس معاہدہ میں کوئی بات ذکر نہیں کی گئی ہے ان کا فیصلہ ۱۹۳۲ کے ایکٹ کے تحت کیا جائے گا، اس میں بھی یہ بات ملحوظ رہے کہ اس ایکٹ کے ذریعہ کیا گیا فیصلہ بھی شرعاً اسی وقت واجب العمل ہو گا جبکہ وہ شریعت کے مطابق ہو، لہذا اگر بالفرض اس ایکٹ کی کوئی شق شریعت کے خلاف ہو تو اس کے لئے عدالت سے رجوع نہ کیا جائے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اس کاروبار کے ذریعہ حاصل ہونے والا نفع اسی وقت حلال ہو گا جبکہ کمپنی کا اصل کاروبار بھی جائز اور حلال ہو اور اس میں تمویل کے طریقے شرعی اصولوں کے مطابق ہوں۔
كتاب المعايير - (1 / 165)
٥/٥/١/٣ يجب الاتفاق على أي طريقة لتوزيع الربح ثابتة أو متغيرة لفترات زمنية:بنسبة كذا للأولى وكذا للثانية تبعا لاختلاف الفترة أو بحسب كمية الأرباح المحققةشريطة ألا تؤدي إلى احتمال قطع اشتراك أحد الأطراف في الربح.
كتاب المعايير(1 / 177)
مستند جواز الاتفاق على أي طريقة لتوزيع الربح ثابتة أو متغيرة لفترات زمنية: أن هذا الاتفاق مقيد بألا يفضي إلى ما يتنافى مع الضابط الشرعي المقرر، وهو عدم قطع اشتراك أحد الأطراف في الربح.
كتاب المعايير - (1 / 163)
3/1/1/4يجوز للشركاء، في أي وقت الاتفاق على تعديل شروط عقد الشركةوتغيير نسب الربح مع مراعاة أن الخسارة بقدر الحصص في الشركة.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام - (3 / 411)
المادة ( ١٣٦٩ ) - ( الضرر والخسارة التي تحصل بلا تعد ولا تقصير تقسم في كل حال بنسبة مقدار رءوس الأموال, وإذا شرط خلاف ذلك فلا يعتبر ( الضرروالخسارة التي تحصل بلا تعد ولا تقصير تقسم في كل حال أي أنه لو شرط خلاف ذلك سواء في الشركة الصحيحة أو الفاسدة, بنسبة مقدار رءوس الأموال وإذا شرط انقسامها على وجه آخر فلا يعتبر أي أن شرط تقسيم الوضيعة والخسارة على وجه آخر باطل حيث قد ورد في الحديث الشريف { الربح على ما شرطا والوضيعة على قدر المالين } ( مجمع الآخر ( من غير فصل بين التساوي والتفاضل ( الدر المنتقى )
مثلا إذا كان رأس مال الشريكين متساويا وشرط أن يكون ثلثا الضرر والخسارةعلى أحدهما وثلثه على الآخر فالشرط فاسد والشركة صحيحة لأن الشركة لا تفسيدبالشروط الفاسدة ويقسم الضرر والخسارة مناصفة ( رد المحتار وتعليقات ابن عابدين على البحر) .
الفتاوى الهندية - (2 / 320)
اشتركا فجاء أحدهما بألف والآخر بألفين على أن الربح والوضيعة نصفان فالعقدجائز والشرط في حق الوضيعة باطل فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا وإن خسرافالخسران على قدر رأس مالهما كذا في محيط السرخسي ومثله في شرح المجله للعلامة خالد الاناسي رحمه الله (٤ / ٢٩٣ المادة : ١٣٦٩)
الدر المختار - (5 / 697)
وهب اثنان دارا لواحد صح لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيمايحتمل القسمة أما ما لا يحتمله كالبيت فيصح اتفاقا قيدنا بكبيرين؛ لأنه لو وهب الكبير وصغير في عيال الكبير أو لا بنية صغير وكبير لم يجز.
رد المحتار - (5 / 697)
(قوله: أو لا بنيه إلخ) عبارة الخانية وهب داره لابنين له أحدهما صغير في عياله كانت الهبة فاسدة عند الكل بخلاف ما لو وهب من كبيرين وسلم إليهما جملة، فإن الهبةجائزة؛ لأنه لم يوجد الشيوع وقت العقد، ولا وقت القبض، وأما إذا كان أحدهماصغيرا فكما وهب يصير قابضا حصة الصغير فيتمكن الشيوع وقت القبض اهـفليتأمل. ثم ظهر أن هذا التفصيل مبني على قولهما، أما عنده فلا فرق بين الكبيرين وغيرهما في الفساد.
الفتاوى الهندية - (4 / 378)
هبة المشاع فيما يحتمل القسمة من رجلين أو من جماعة صحيحة عندهما وفاسدةعند الإمام وليست بباطلة حتى تفيد الملك بالقبض كذا في جواهر الأخلاطي.. وأماالشيوع من طرف الموهوب له فمانع من جواز الهبة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى خلافا لهما كذا في الذخيرة ولو وهب من اثنين إن كانا فقيرين يجوز بالإجماع كالصدقة .. قال ابن سماعة عن أبي يوسف رحمه الله تعالى إذا قال لرجلين وهبت لكما هذه الدار لهذا نصفها ولهذا نصفها جاز لأنه وهبها جملة وفسر بما اقتضته
الجملة من الحكم بعد وقوع الهبة ولو قال وهبت لك نصفها ولهذا نصفها لم تجزلأنه أفرد أحد النصفين عن الآخر بنفس العقد فوقع العقد مشاعا .. كذا في السراج الوهاج..واللہ تعالی اعلم