ہمار ے ادارے میں ہر سال اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں قرب وجوار کےبہت سے افراد حصہ لیتے ہیں،قربانی کے جانور لا نے، ان کو چارہ ڈالنے، اور ان کو ذبح کروانے، وغیرہ کےاخراجات کو شر کاء قربانی پرتقسیم کیا جاتا ہے ، جب قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم ہوتی ہے تو اکثرافراد، او چھڑی ، چربی، سری وغیرہ چھوڑ جاتے ہیں، خود سری ، پاؤں وغیرہ کو بنا کردینا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ جانور 200،150 کے قریب ہوتے ہیں دریافت یہ کرنا ہے کہ ان چھوڑے ہوئے ، اعضاء وغیرہ کو کس مصرف میں استعمال کیا جائے؟
اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے قربانی کرنے میں شرکاء کے وکیل ہوتے ہیں،اور دوسری طرف شرکا ئے قربانی ، قربانی کے جانور کے ہر ہر حصے میں شریک ہوتےہیں لہذا اگر منتظمین ، شرکائے قربانی کو اوجھڑی ، چربی، سری وغیرہ سے ان کا حصہ الگ کر کے دیتے ہیں ، اور وہ اپنا حصہ چھوڑ جاتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے اجازت شمار ہو گی، اور اگر اس خیال سے کہ چربی، اوجھڑی اور سری وغیرہ کو تو کوئی نہیں لیتایا نہیں لے گا ان کو الگ ہی نہیں کرتے یا تقسیم ہی نہیں کرتے تو درست نہیں، ایسی صورت میں شرکاء سےطے کرنا ضروری ہے کہ ہم ان اشیاء کو طلبہ یا مدرسہ کی ضروریات میں استعمال کر لیں گے تو ان کی اجازت سے طلباءِ مدرسہ یا مصارفِ مدرسہ یا مستحقین پر خرچ کرنا درست ہو جائے گا۔
شرکاء سے اجازت لینے کا ایک آسان حل یہ ہے کہ قربانی کی رقم وصول کرنے کے لئے جو رسید کاٹی جاتی ہے۔ اس کی پشت پر اس کی تصریح کردی جائے اوران کو پڑھوا کر ان سے دستخط لے لیا جائے تو یہ ان کی طرف سے اجازت کے قائم مقام ہو جائے گا۔
بدائع الصنائع ، كتاب الأضحية ، فصل في كيفية الوجوب( 20/ 200)
ومنها أن تجزئى فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحى بنفسه وبغيره بإذنه لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئى فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر.
الفتاوي العالمگيرية ، كتاب الأضحية، الباب السابع ( 303/5 )
لو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا فى ظاهر الرواية .وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية إن كان أولاده صغارا جاز عنه وعنهم جميعا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن كانوا كباراإن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم ؟
بدائع الصنائع ، كتاب الأضحية ، كيفية الوجوب ( 2 / 201،202)
قال : وسألت أبا يوسف رحمه الله عن البقرة إذاذ بحها سبعة في الأضحية أيقتسمون لحمها جزافا أووزنا قال: بل وزنا، قال قلت: فان اقتسموها مجازفة، وحلل بعضهم بعضاً قال أكره ذلك...... أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من الأموال الربوية فلا يجوز تمليكہ مجازفة كسائر الأموال الربوبية.
الدر المختار، كتاب الأضحية ( 7/9)
ويقسم اللحم وزنا لا جزافا إلا إذا ضم معه من الأكارع أو الجلوم صرفا للجنس لخلاف جنسية.
الفتاوي العالمگيرية ، كتاب الأضحية، الباب السابع ( 301/5 )
ولا يحل بيع شحمها وأطرافها ورأسها وصوفها و وبرها و شعرها ولبنها الذي يجلبه منها بعد ذبحها بشئى لا يمكن الانتفاع به إلا باستهلاك عينه من الدراهم والدنانير والمأكولات والمشروبات ولا أن يعطى أجرالجزار والذابح منها، فإن باع شيئا من ذلك بما ذكرنا نفذ عند أبي حنيفةو محمد رحمهما الله وعند أبي يوسف لا ينفذ و يتصدق بثمنه.