کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
جامعہ دار العلوم کراچی کے فتوی نمبر (78/2042) کے سوال نمبر (4) کے جواب میں بحوالہ فتاوی عثمانی (374/3) یہ لکھا گیاہے کہ ملازم پر یہ شرط عائد کرنا کہ وہ ملازمت کے اوقات کے علاوہ خارجی اوقات میں کسی دوسری جگہ ملازمت نہیں کر سکتا شرط خلاف مقتضائے عقد ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے، اور ادارہ کو یہ شرط عائد کرنے کا حق نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں بندہ یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ کمپنیوں اور اداروں میں بعض ملازمتیں بہت اہم ہوتی ہیں اور اداروں کو یہ اندیشہ ہو تاہے کہ اگر یہ ملازم کسی دوسری جگہ کام کرے گا تو ادارہ کے کام میں حرج ہو گا، جس کی وجہ سے ادارہ کو اس قسم کی شرط رکھنی پڑتی ہے تواگر یہ پابندی بطور شرط عقد اجارہ میں درست نہیں ہے جیسا کہ اس فتوی میں ذکر ہے تو کیا اگر کوئی ادارہ عقد اجارہ کرتے وقت اس پابندی کو اپنے معاہدہ میں بطور شرط نہیں بلکہ ایک وعدہ کے طور پر شامل کرے یعنی جس طرح کوئی بھی ادارہ ملازمت کی اہلیت کے لئے مختلف شرائط رکھتا ہے کہ فلاں ملازمت کے لئے وہ شخص اہل ہو گا جو مثلاً ایم بی اے پاس ہو، اس کی عمر مثلاً اٹھائیس سال سے زائد نہ ہو، فلاں علاقہ کا رہنے والا ہو وغیرہ وغیرہ تو جس طرح کوئی بھی ادارہ اپنے یہاں ملازمت کا کوئی بھی معیار رکھ سکتا ہے کہ اس معیار پر نہ اترنے والاشخص مطلوبہ ملازمت حاصل نہیں کر سکتا تو کیا کوئی ادارہ اپنی شرائطِ اہلیت میں یہ بات شامل نہیں کر سکتا کہ اس ملازمت کا وہ شخص اہل ہو گا جو ہم سے اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ کسی دوسری جگہ ملازمت نہیں کرے گا۔ اور اس وعدہ کی رو سے شرعاً اس کے لئے جائز نہ ہو کہ وہ دوسری جگہ ملازمت کرے؟ چونکہ یہ از قبیلِ وعدہ ہے تو جس طرح دیگر وعدے التزام سے لازم ہو جاتے ہیں تو اگر کوئی شخص ملازمت کے حصول کے لئے از خود وعدہ کرے کہ وہ یہ بات اپنے اوپر لازم کرتا ہے کہ وہ خارجی اوقات میں کسی دوسری جگہ ملازمت نہیں کرےگا تو کیا اس کے لئے یہ التزام درست نہیں ہے؟ کیا کسی ادارہ کو اس طرح کا وعدہ لینے کی بھی گنجائش نہیں ہے ؟ اور اس وعدہ کی رو سے ادارہ کے لئے اس بات کی بھی اجازت ہو کہ وعدہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ملازمت سے برطرف کر دے گی۔ اس سوال میں اس نقطہ کوبھی ملحوظ رکھا جائے جس کا ذکر فتاوی عثمانی میں مسئلہ ہذا کے ذیل میں بحوالہ فتاوی خلیلیہ لکھا گیا ہے کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے اپنے محاکمہ میں یہ بات فرمائی ہے:
اور اگر اس کو شرط فی العقد نہ قرار دیا جائے بلکہ خارج ِعقد کہا جائے یا شرط معروف قرار دی جائے توان سب صورتوں میں مدرس واقعہ متنازع فیہ میں پوری تنخواہ کا مستحق ہو گا۔"اس میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اگر کوئی شرط داخل ِعقد نہ ہو بلکہ خارج ِعقد ہو تو اگر چہ وہ مقتضائے عقد کے خلاف بھی ہو تو بھی عقدِ اجارہ میں اس کا تحمل کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اگر یہ شرط بطور وعدہ یاشرط اہلیت رکھی جائے تو کیا اس کی گنجائش نہیں نکلتی؟
ملازم کو اس بات کا پابند کرنا کہ وہ ملازمت کے اوقات کے علاوہ خارجی اوقات میں کوئی دوسرا ذریعہ معاش اختیار نہیں کر سکتا، اس شرط کا اصل حکم یہ ہے کہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے، اور ایسی شرط لگانا درست نہیں ہے۔ لہذا افتویٰ نمبر (78/2042) اور فتاوی عثمانی (374/3) میں مذکور حکم اصل کےمطابق ہے۔
البتہ اگر کوئی شرط معروف ہو جائے تو اگر چہ وہ مقتضائے عقد کے خلاف ہو، مگر فقہائے کرام نے ایسی شرط لگانے کی گنجائش دی ہے۔ چنانچہ آج کل یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ شرط اداروں میں بہت عام ہو چکی ہے، بیشتر ادارے اپنی بعض مجبوریوں اور ضرورتوں کی وجہ سے یہ شرط ملازم پر لگاتے ہیں۔ لہذا معروف ہونے کی بناء پر اس شرط کے لگانے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ البتہ اداروں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ شرط حد سےمتجاوز نہ ہو اور اسی وقت لگائی جائے جبکہ ادارہ کو یقین ہو کہ ملازم اگر خارج اوقات میں کوئی دوسرا کام کرےگا تو ملازم کی کار کردگی میں کمی آئے گی جس کی وجہ سے ادارہ کو حرج ہو گا، نیز ایسی صورت میں اپنے ملازم کواتنی تنخواہ دینی چاہئے کہ اس کی تمام ضروریات بآسانی پوری ہو جائیں اور وہ معاشرے میں اپنی حیثیت کےمطابق زندگی گزار سکے اور اس کو دوسرا کام کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ (ماخذہ التبویب: 90/1541)تاہم دیگر اہل علم حضرات سے مشورہ کر لینا بھی مناسب ہے۔
درر الحكام فی شرح مجلة الأحكام (1/ 159)
الشرط المتعارف ولو لم يكن من مقتضيات العقد جوز البيع معه استحساناوصار معتبرا هندية. .....والله تعالى اعلم بالصواب