عرض یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صدقات کے لئے ایک طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنے مسائل و مشکلات میں آسانی، حاجات و مقاصد میں کامیابی اور بیماروں کی شفایابی کے سلسلے میں جانوروں مثلا بکروں وغیرہ کا صدقہ کرتے ہیں، چنانچہ جانور ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں، محتاجوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ، یا خیراتی اداروں کو دے دیا جاتا ہے جبکہ بعض لوگ مدارس میں جمع کر واد دیتے ہیں۔آج کل اس مقصد کے لئے مختلف خیراتی اداروں کی طرف سے یہ سہولت دی گئی ہے کہ کوئی شخص صدقہ کےبکرے کی قیمت ان کے پاس جمع کروا دیں تو ادارہ اس کی طرف سے جانور ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں تک پہنچانے کی خدمت سر انجام دیتے ہیں۔
احسن الفتاوی (جلد نمبر 1، صفحہ نمبر ، 367، طبع یاز دہم، ایچ ایم سعید ) میں بیماروں کی شفایابی کے لئے جانوروں کے ذبح کرنے پر بدعت کا حکم مذکور ہے اور اس سلسلے میں عوام کے اعتقاد ( جان کا بدلہ جان سمجھنے ) کی وجہ سے اس سے منع کیا گیا ہے اگر چہ کوئی شخص یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو تو بھی اس میں چونکہ اس عقیدے اور بدعت کی تائید ہے لہذا نا جائز ہے۔ (مفہوم)
اس سلسلے میں آگاہ فرمائیں کہ:
1. کیا بیماروں کی طرف سے جانور کو ذبح کرنا مطلقاً منع ہے ؟ یا کچھ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اس کی گنجائش ہو سکتی ہے؟
2. اگر کوئی شخص بیمار کی صحت کے لئے کسی غلط عقیدے کے بغیر محض صدقہ کی نیت سے کوئی جانور مدرسہ میں جمع کروائے تو کیااہل مدارس اس کو قبول کر سکتے ہیں ؟
3. ایک سوال یہ ہے کہ ایک شخص بیمار ہے ، اس کا والد اس کی طرف سے بطور صدقہ بکرا یا کوئی اور جانور ذبح کر کے گوشت تقسیم کرنا چاہتا ہے تا کہ صدقہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کے بیٹے کی بیماری میں شفاء اور آسانی کا معاملہ فرمائے ، کیا اس مقصد کے لئے قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کیا جا سکتا ہے؟ یا ایام ِقربانی کے دن گزرنے کے بعد جانور ذبح کرنا چاہئے؟
(1) ۔۔۔واضح رہے کہ صدقہ کے لیے شرعاً جانور ذبح کرناضروری نہیں، بلکہ ہر جائز اور حلال مال سے کسی بھی ضرورت مند کی حاجت کو پورا کیا جا سکتا ہے اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ نقد ر قم صدقہ کی جائے تاکہ غریب آدمی کی جو بھی ضرورت ہو وہ اس سے پوری کر لے۔ جان بچانے کے واسطے جان کے بدلے جان کےصدقے کا اعتقاد کرنا اور یہ سمجھنا کہ جان کے عوض جان دینے سے جان بچے گی ورنہ نہیں، یہ اعتقاد بھی خلافِ شرع ہے، ایسے عقیدے سے توبہ کرنی چاہیے اور شریعت میں صدقہ کے واسطے کوئی خاص چیز مقررنہیں ہے۔ تاہم بیماری سے شفاء یابی کےلئے جانور ذبح کر ناشر عا ًمطلقا ممنوع نہیں، لہذا اگر مذکورہ بالا فاسد عقیدہ نہ
ہو تو جانور ذبح کرنا جائز ہے۔ (مستفاد من تبویب:42/2030،90/1)
(2) ۔۔۔ صدقہ کی نیت سے دیا گیا جانور اہل ِمدارس قبول کر سکتے ہیں۔
(3) ۔۔۔ صدقہ کرنے کے لیے شرعا ًکوئی خاص دن مقرر نہیں بلکہ سال میں کسی بھی دن صدقہ کیا جاسکتاہے لہذا قربانی کے ایام میں بھی صدقہ کی نیت سے بکرا ذبح کر سکتے ہیں۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1333)
وَعَنْ عَلِيّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - : " «بَادِرُوابِالصَّدَقَةِ فَإِنَّ الْبَلَاءَ لَا يَتَخَطَّاهَا» " رَوَاهُ رَزِينٌ.
دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين (350/2)
عن أبي ذر أيضاً أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: يصبح على كل سلامي ۔۔۔على أن الصدقة تدفع البلاء، فبوجودها عن أعضائه يرجى دوام اندفاع البلاء عنها.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1075/3)
1452 وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه -: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم - كان يخرج يوم الأضحى ويوم الفطر فيبدأ بالصلاةفإذا صلى صلاته، قام فأقبل على الناس، وهم جلوس في مصلاهم، فإن كانت له حاجة يبث ذكره للناس، أو كانت له حاجة بغير ذلك أمرهم بها،وكان يقول: تصدقوا تصدقوا تصدقوا وكان أكثر من يتصدق النساء الخ رواه مسلم. (تصدقوا، تصدقوا تصدقوا) : التثليث للتأكيد اعتناء بأمر الصدقة ; لعموم نفعها، وشرح النفوس بها، أو باعتبار النبي في حذائه ويمينه وشماله، أوإشارة إلى الأحوال الثلاث أي: تصدقوا لدنياكم، تصدقوا لموتاكم، وتصدقوالأخراكم، أو الأمر الأول للزكاة، والثاني للفطرة، والثالث للصدقة.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2002)
ولأن الإراقة لم تعقل قرية بنفسها، وإنما عرفت قرية بالشرع، والشرع ورد بها في مكان مخصوص أو زمان مخصوص، فيتبع مورد الشرع فينقياء كونها قريةبالمكان الذي ورد الشرع بكونها قرية فيه أو الأمر الأول للزكاة، والثاني للفطرة، والثالث للصدقة....واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب